Coronavirus

6/recent/ticker-posts

اومیکرون : کورونا کا نیا روپ

سوئی کی نوک پر لاکھوں کی تعداد میں سماجانے والا کورونا کا حقیر جرثومہ روپ بدل بدل کر انسانی دنیا پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ تین سال سے اس نے پورے کرۂ ارض کو تلپٹ کررکھا ہے ۔ دنیا کے اربوں انسانوں کو ویکسین دیے جانے کے باوجود اس عفریت کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور لاکھوں انسانی جانوں کی بھینٹ لے چکنے کے بعد بھی اس کی خوں آشامی جاری ہے۔ کورونا کی ایک قسم پر قابو پا لیا جاتا ہے اور دنیا میں زندگی کے معمولات بحال ہونے لگتے ہیں تو نئی قسم ازسرنو اعلان جنگ کے ساتھ سامنے آجاتی ہے۔ پاکستان میں بھی حال ہی میں زندگی کی سرگرمیاں پوری طرح بحال ہوئی تھیں، معیشت کا پہیہ پھر سے رواں ہو رہا تھا، کارخانوں‘ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں زندگی کی گہماگہمی نظر آنا شروع ہوئی تھی کہ خطرے کی گھنٹی دوبارہ بج گئی ہے۔ 

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق جنوبی افریقہ میں سامنے آنے والی کورونا کی نئی قسم اومیکرون کی ملک میں آمد کے خطرے کے باعث جنوبی افریقہ سمیت سات ملکوں پر سفری پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دیگر چھ ملکوں میں افریقی ممالک لیسوتھو، اسویٹنی، موزمبیق، بوٹسوانا اور نمیبیا کے علاوہ ایک ایشیائی ملک ہانگ کانگ بھی شامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اومیکرون تیزی سے منتقل ہونیوالا وائرس اور پہلے سے موجود ڈیلٹا وائرس ہی کی ایک قسم ہے۔ یورپ اور امریکا میں بھی اس سے متاثر ہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں اور یہ انسانی ہلاکتوں کی وجہ بن رہا ہے۔ ابتدائی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیگر منتقل ہونے والے وائرسوں کے مقابلے میں دوبارہ انفیکشن کا خطرہ زیادہ بڑھا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو کورونا وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہو چکے ہیں یہ وائرس ان پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ماہرین نے اومیکرون کے مطالعے کے بعد اس کے ردعمل کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ایک سخت جان اور زیادہ متعدی وائرس ہے۔ امریکا میں پابندیاں ختم ہونے اور زندگی معمول پر آنے کا جشن منائے جانے کے بعد صورت حال نئے سرے سے مخدوش ہو گئی ہے اور صدر جوبائیڈن نے نئی سفری پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے لہٰذا ہم نے محتاط رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، سنگاپور اور جاپان نے بھی متاثرہ جنوبی افریقی ملکوں سے آمد ورفت پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ 

پاکستان میں این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے بجا طور پر ملک میں بارہ سال سے زیادہ عمر کی تمام آبادی کی جلداز جلد ویکسی نیشن پر زور دیا ہے اور سب کو اس معاملے میں پوری ذمے داری کا ثبوت دیتے ہوئے این سی او سی کی ہدایات پر کاملاً عمل کرنا چاہیے۔ تاہم پوری انسانی برادری کو اب یہ طے کر لینا چاہئے کہ اس ضدی جرثومے کا مقابلہ کاروبار زندگی کو معطل کر کے نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر سے کیا جائیگا، معیشت کا پہیہ بہرصورت رواں رکھا جائے گا، تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز کو دوبارہ ویران نہیں کیا جائے گا، جو کام کسی نقصان کے بغیر آن لائن ہو سکتے ہیں وہ یقینا اسی طرح انجام دیے جانے چاہئیں لیکن جہاں انسانی نقل و حرکت اور میل جول ناگزیر ہے وہاں حتی الامکان تعطل کی کیفیت پیدا نہیں ہونے دی جانی چاہئے۔ ویکسین کے ساتھ ساتھ اس وائرس کے علاج کیلئے مؤثر ادویات کی جلد تیاری کی مہم بھی تیز تر کی جانی چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسکے مقابلے کیلئے مناسب غذاؤں، بہتر ماحول اورضروری وٹامنز و معدنیات کے ذریعے سے انسانی قوت مدافعت کو بڑھانے کی تدابیر سے لوگوں کو مکمل آگہی فراہم کی جانی چاہیے کیونکہ فطرت کا یہ نظام تمام بیماریوں سے حفاظت کا ضامن اور انسانی صحت کا ہمہ وقتی محافظ ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Post a Comment

0 Comments